Urdu Poetry (Urdu Ghazals)

1
اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے


اس کے ہنسنے کی کیفیت، توبہ
جیسے بجلی چمک چمک جائے

اس کے سینے کا زیرو بم، توبہ
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے

لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے

ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے

ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے

(عبد الحمید عدم)


2
اپنے گھر میں جبر کے ہیں فیضان کئی
پل بھر میں دھُنک جاتے ہیں ابدان کئی

بٹتا دیکھ کے ریزوں میں مجبوروں کو
تھپکی دینے آ پہنچے ذی شان کئی

شاہ کا در تو بند نہ ہو پل بھر کو بھی
راہ میں پڑتے ہیں لیکن دربان کئی

طوفاں میں بھی گھِر جانے پر، غفلت کے
مرنے والوں پر آئے بہتان کئی

دل پر جبر کرو تو آنکھ سے خون بہے
گم سم رہنے میں بھی ہیں بحران کئی

ہم نے خود دیکھا ہاتھوں زورآور کے
قبرستان بنے ماجد دالان کئی

(ماجد صدیقی)


3
فتنہ پھر آج اُٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خُون بھی خُون مُجھے رنگ ِ سحر لگتا ہے

مان لُوں کيسے کہ ميں عيب سراپا ہُوں فقط
ميرے احباب کا يہ حُسن ِ نظر لگتا ہے

کل جسے پھُونکا تھا يہ کہہ کے کہ دُشمن کا ہے گھر
سوچتا ہُوں تو وہ آج اپنا ہي گھر لگتا ہے

احتياطاَ کوئی در پھوڑ ليں ديوار ميں اب
شور بڑھتا ہُوا کُچھ جانب ِ در لگتا ہے

ايک دروازہ ہے ہر سمت ميں کھلنے کے لۓ
ہو نہ ہو يہ تو مُجھے شيخ کا گھر لگتا ہے

(آنند ناراين ملاہ)


4
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

بام ِ مينا سے ماہتاب اترے
دست ِ ساقي ميں آفتاب آئے

ہر رگ ِ خوں ميں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تيري مہر و وفا کے باب آئے

کر رہا تھا غم ِ جہاں کا حساب
آج تم ياد بے حساب آئے

نہ گئي غم کي سرداري
دل ميں يوں روز انقلاب آئے

جل اٹھے بزم ِ غير کے در و بام
جب بھي ہم خانماں خراب آئے

اس طرح اپني خامشي گونجی
گويا ہر سمت سے جواب آئے

فيض تھي سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامياب آئے

(فیض احمد فیض)


5
کیا بتاوں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں باد ِ صبا ہے مجھ میں

تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے، یا کوئی نقش ِ کف ِ پا ہے مجھ میں

میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروف ِ دعا ہے مجھ میں

اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں

آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں

ہوگئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں

مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے برسر ِ پیکار فنا ہے مجھ میں

مجلس ِ شام ِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحول ِعزا ہے مجھ میں

ہوگئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں

خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں

اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں

مجھ سا بے مایہ کہاں، اور کہاں زعم ِ کلام
اے مرے ربّ ِ سخن، تیری عطا ہے مجھ میں

تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

کیسے مل جاتی ہے آواز ِ اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں

کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں

مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں

روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں


6
جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا
آنے جانے کے لیے اک سلسلہ رکھنا پڑا

زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو تھی
منزلوں سے باندھ کر ہر راستہ رکھنا پڑا

لوگ کب تیار تھے بیدار ہونے کے لیے
ہر کسی کی آنکھ میں اک حادثہ رکھنا پڑا

ایک بے ترتیب سی دنیا تھی جسم و جاں کی
پھر بھی اپنی گفتگو میں ضابطہ رکھنا پڑا

گھر کی اندر کی فضا تاریک تھی ایسی نوید
روشنی کی سمت دروازہ کھلا رکھنا پڑا

(اقبال نوید)


7
کوشش نا تمام

فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے

رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے

کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے
ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے

سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق
موجہ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے

حسن ازل کہ پردہ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوہ عام کے لیے

راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے

(علامہ محمد اقبال)


8
ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے

خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے

اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے

دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے

اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے

دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے

اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے

میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

(کشور ناہید)


9
یمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے 
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے

بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے

ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرانا کہاں سے آئے

وحشت حواس کی چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا کہاں سے آئے

جڑ سے اُکھڑ گئے تو بدلتی ُرتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے

سایوں پہ اعتماد سے اُکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے

غم کے تھپیڑے لے گیا ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے

(کشور ناہید)


10
زردار کبھی چاہنے والا نہیں مانگا
رائی کی ضرورت پہ ہمالہ نہیں مانگا

بر وقت ضرورت نہ ہوئی پوری کسی سے
سورج سے اندھیرے میں اجالا نہیں مانگا

اکثر میرے چولہے میں رہا برف کا ڈیرا
لیکن کسی رشتے سے نوالہ نہیں مانگا

غالب کے ہنر ، میر کی فن کاری کے صدقے
ناقد سے کسی نے بھی حوالہ نہیں مانگا

پوری نہ ہو ، ایسی کوئی خواہش ہی نہیں کی
منظر کوئی آنکھوں نے نرالہ نہیں مانگا

تپتے ہوئے صحرا کی ضیا پیاس بجھائی
دریاؤں سے پانی کا پیالہ نہیں مانگا

(ڈاکٹر کلیم ضیا)

No comments:

Post a Comment